دل کا کنول بجھا تو شہر‘ تیرہ و تار ہو گئے

شکیب جلالی


پردہِ شب کی اوٹ میں زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر‘ تیرہ و تار ہو گئے
ایک ہمیں ہی اے سحر‘ نیند نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر‘ سارے چراغ سو گئے
راہ میں تھے ببول بھی‘ رودِ شرر بھی‘ دھول بھی
جانا ہمیں ضرور تھا‘ گل کے طواف کو گئے
دیدہ ورو بتائیں کیا‘ تم کو یقیں نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے ‘ سینے میں داغ بو گئے
داغِ شکست دوستو‘ دیکھو کسے نصیب ہو
بیٹھے ہوئے ہیں تیز رو‘ سست خرام تو گئے
اہلِ جنوں کے دل شکیبؔ‘ نرم تھے موم کی طرح
تیشہِ یاس جب چلا‘ تودہِ سنگ ہو گئے
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن
رجز مثمن مطوی مخبون
فہرست