درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

عرفان صدیقی


کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
تھکے ہوئے کسی لمبے سفر سے لوٹے ہیں
ہوائے تازہ ابھی ہم کہیں نہیں جاتے
بہت یقیں ترے دستِ رفو پہ ہے لیکن
میں کیا کروں مرے زخمِ یقیں نہیں جاتے
یہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
ادھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے
میں تم سے ملنے کو اس شہرِ شب سے آتا ہوں
جہاں تم ایسے ستارہ جبیں نہیں جاتے
یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اترے ہیں
کہ ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست