چونکوں ہوں دیکھ سائے کو اپنے قدم کے ساتھ

انشاء اللہ خان انشا


ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالان رم کے ساتھ
چونکوں ہوں دیکھ سائے کو اپنے قدم کے ساتھ
ہے ذاتِ حق جواہر و اغراض سے بری
تشبیہ کیا ہے اس کو وجود و عدم کے ساتھ
کیا این و ملک و وضع و اضافت کا دخل واں
ہے انفعال و فعل متیٰ کیف و کم کے ساتھ
دیکھا میں ساتھ ڈھول کے سولی پر ان کا سر
فخریہ وہ جو پھرتے تھے طبل و علم کے ساتھ
دیکھی یہ چاہ ان کی اندھیرے کنویں کے بیچ
پھینکا لپیٹ کشتہ کو اپنے گلم کے ساتھ
کوئے بتاں سے طوفِ حرم کو چلے تو ہم
لیکن کمال حسرت و حرمان و غم کے ساتھ
تھیں اپنی آنکھیں حلقۂِ زنجیر کی نمط
پیوستہ ہل رہی در بیتُ الصنم کے ساتھ
کہتے ہو ووں سے ہو کے ادھر آؤ ووں چلیں
کیا خوب کیوں نہ دوڑ پڑوں ایسے دم کے ساتھ
تم اور بات مانو اجی سب نظر میں ہے
دانتوں تلے زبان دبانی قسم کے ساتھ
اب چھیڑ چھاڑ کی غزل انشاؔ اک اور لکھ
ہیں لاکھ شوخیاں تری نوکِ قلم کے ساتھ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست