آج اس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں

عرفان صدیقی


وہ خدا ہے کہ صنم، ہاتھ لگاکر دیکھیں
آج اس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گل بدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہ کا آئینہ دکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دکھائی دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت
اب تکلف کی یہ دیوار گراکر دیکھیں
خیر، دلی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤں کے سوا
اپنی دہلیز پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اس غزل آراء کو سناکر دیکھیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست