جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نئیں ہوئی

عرفان صدیقی


ایسا تو نئیں کہ ان سے ملاقات نئیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نئیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نئیں ہوئی
پیش ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر بسر اوقات نئیں ہوئی
تیرے بغیر بھی غمِ جاں ہے وہی کہ نئیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نئیں ہوئی
ہم کون پیرِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نئیں ہوئی
کیا سہل اس نے بخش دیا چشمۂ حیات
جی بھر کے سیرِ وادیِ ظلمات نئیں ہوئی
میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نئیں ہوئی
اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزتِ سادات نئیں ہوئی
یاقوتِ لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ
اجرت ہوئی حضور یہ سوغات نئیں ہوئی
کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو جیسے
اب تک تری طرف سے شروعات نئیں ہوئی
فہرست