اور سچ پوچھو تو سرمایۂ فن وہ بھی ہے

عرفان صدیقی


ہائے وہ جسم کہ اک جی کی جلن وہ بھی ہے
اور سچ پوچھو تو سرمایۂ فن وہ بھی ہے
اس کو بانہوں میں گرفتار کرو تو جانیں
تم شکاری ہو تو رم خوردہ ہرن وہ بھی ہے
ایک دن تو بھی مری فکر کے تاتار میں آ
تیرا گھر اے مرے آہوئے ختن، وہ بھی ہے
اس کی آنکھوں میں بھی رقصاں ہے وہی گرمیِ شوق
غالباً محرمِ اسرار بدن وہ بھی ہے
لاؤ کچھ دیر کو پہلوئے بتاں میں رک جائیں
ہم مسافر ہیں، ہمارا تو وطن وہ بھی ہے
اور کچھ راز نہیں راتوں کی بیداری کا
ہم بھی ہیں شیفتۂ شعر و سخن، وہ بھی ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست