اک سبب کیا بھید واں کا سب کا سب کھلتا نہیں

بہادر شاہ ظفر


کیوں کہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
اک سبب کیا بھید واں کا سب کا سب کھلتا نہیں
پوچھتا ہے حال بھی گر وہ تو مارے شرم کے
غنچۂِ تصویر کے مانند لب کھلتا نہیں
شاہد مقصود تک پہنچیں گے کیونکر دیکھیے
بند ہے باب تمنا ہے غضب کھلتا نہیں
بند ہے جس خانۂِ زنداں میں دیوانہ تیرا
اس کا دروازہ پری رو روز و شب کھلتا نہیں
دل ہے یہ غنچہ نہیں ہے اس کا عقدہ اے صبا
کھولنے کا جب تلک آوے نہ ڈھب کھلتا نہیں
عشق نے جن کو کیا خاطر گرفتہ ان کا دل
لاکھ ہووے گرچہ سامان طرب کھلتا نہیں
کس طرح معلوم ہووے اس کے دل کا مدعا
مجھ سے باتوں میں ظفرؔ وہ غنچہ لب کھلتا نہیں
فہرست