میں دیا بن کے جھلملائے گیا

رئیس فروغؔ


گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا
میں دیا بن کے جھلملائے گیا
کل کسی اجنبی کا حسن مجھے
یاد آیا تو یاد آئے گیا
سفرِ درد میں خیال اس کا
دور سے روشنی دکھائے گیا
وہ نہ تھا آج اس کے آنچل میں
اک دھواں صورتیں بنائے گیا
چھاؤں کو گود میں لیے پہروں
نیم کا پیڑ گنگنائے گیا
میں تو ہر موسمِ بہار کے ساتھ
ایک ہی جسم سے نبھائے گیا
اس کو دل میں بسا کے میں اس سے
دل کی ویرانیاں چھپائے گیا
دل کی ویرانیاں چھپانے کو
جتنے شوکیس تھے سجائے گیا
وصل کے داغ ناتمامی کو
جب تلک ہوسکا جلائے گیا
کوئی گھائل زمیں کی آنکھوں میں
نیند کی کونپلیں بچھائے گیا
مجھ میں کیا بات تھی رئیس فروغؔ
وہ سجن کیوں مجھے رجھائے گیا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست