ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر

رئیس فروغؔ


اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر
باتوں کے لیے شکوۂموسم ہی بہت ہے
کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سنا کر
سونے دے انہیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر
تو صبحِ بہاراں کا حسیں خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست