اپنے گھر میں ہے تماشا اپنا

رئیس فروغؔ


کوئی دریا ہے نہ صحرا اپنا
اپنے گھر میں ہے تماشا اپنا
اک سخن ہے کہ زباں سے میری
کیے جاتا ہے تقاضا اپنا
کوئی چہرہ ہے کہ اس پر میں نے
کبھی دیکھا تھا اجالا اپنا
کہیں ملتے ہیں تو مل لیتے ہیں
رنج کہتے نہیں اپنا اپنا
اب ترے شہر کی دیواروں سے
بات کرتا ہے سراپا اپنا
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست