دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل

بہادر شاہ ظفر


اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ
مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل
فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوزِ دل کے ساتھ
اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل
یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما
سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل
انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ
اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل
پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم
کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل
ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂِ عدم
آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل
ہے شمعِ سر کے بل جو محبت میں گرم ہو
پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل
بلبل کے ہوش نکہتِ گل کی طرح اڑا
گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل
گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہِ یار
دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل
جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ
تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست