دنیا سے جا رہا ہوں میں دنیا لیے ہوئے

احسان دانش


اٹھا ہوں اک ہجومِ تمنا لیے ہوئے
دنیا سے جا رہا ہوں میں دنیا لیے ہوئے
مدت سے گرچہ جلوہ‌‌ گہِ طور سے خموش
آنکھیں ہیں اب بھی ذوقِ تماشا لیے ہوئے
دنیائے آرزو سے کنارہ تو کر کے دیکھ
دنیا کھڑی ہے دولتِ دنیا لیے ہوئے
روزِ ازل سے عشق ہے ناکام آرزو
دل ہے مگر ہجومِ تمنا لیے ہوئے
اے کم نگاہ دیدۂ دل سے نگاہ کر
ہر ذرہ ہے حقیقت صحرا لیے ہوئے
ہستی کی صبح کون سی محفل کا ہے مآل
آنکھیں کھلی ہیں حسرت جلوہ لیے ہوئے
دن بھر مری نظر میں ہے وہ یوسف بہار
آتی ہے رات خوابِ زلیخا لیے ہوئے
دل پھر چلا ہے لے کے ترے آستاں کی سمت
اپنی شکستگی کا سہارا لیے ہوئے
وہ دن کہاں کہ تھی مجھے جینے کی آرزو
پھرتا ہوں اب تو دل کا جنازا لیے ہوئے
فہرست