کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے

شیخ ابراہیم ذوق


مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے
غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیوں کہ بے وضو کرتے
عجب نہ تھا کہ زمانے کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے
اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
سمجھ یہ دار و رسن تار و سوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے
یقیں ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے
نہ رہتی یوسف کنعاں کی گرمیِ بازار
مقابلے میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے
چمن بھی دیکھتے گلزار آرزو کی بہار
تمہاری بادِ بہاری میں آرزو کرتے
سراغ عمرِ گزشتہ کا کیجیے گر ذوقؔ
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست