حسرت سے نگاہ ہم نے کر لی

مصحفی غلام ہمدانی


دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی
حسرت سے نگاہ ہم نے کر لی
کیا جانے کوئی کہ گھر میں بیٹھے
اس شوخ سے راہ ہم نے کر لی
بندہ پہ نہ کر کرم زیادہ
بس بس تری چاہ ہم نے کر لی
جب اس نے چلائی تیغ ہم پر
ہاتھوں کی پناہ ہم نے کر لی
نخوت سے جو کوئی پیش آیا
کج اپنی کلاہ ہم نے کر لی
زلف‌ و رخ مہوشاں کی دولت
سیر شب ماہ ہم نے کر لی
کیا دیر ہے پھر یہ ابرِ رحمت
تختی تو سیاہ ہم نے کر لی
دی ضبط میں جب کہ مصحفیؔ جاں
شرم اس کی گواہ ہم نے کر لی
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست