ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہِ یار سے حجاب

مصطفٰی خان شیفتہ


کیا اٹھ گیا ہے دیدۂِ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہِ یار سے حجاب
لا و نعم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے ، اقرار سے حجاب
تقلیدِ شکل چاہیے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب
دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب
رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب
وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب
جوش نگاہ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب
روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب
فہرست