میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

مومن خان مومن


یہ عذر امتحان جذبِ دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
نہ شادی مرگ ہوں کیوں کر ہے مژدہ قتل دشمن کا
کہ گھر میں سے لیے شمشیر وہ روتا نکل آیا
ستم اے گرمی ضبط فغان و آہ چھاتی پر
کبھو بس پڑ گیا چھالا کبھو پھوڑا نکل آیا
کیا زنجیر مجھ کو چارہ گر نے کن دنوں میں جب
عدو کی قید سے وہ شوخ بے پروا نکل آیا
نکل آیا اگر آنسو تو ظالم مت نکال آنکھیں
سنا معذور ہے مضطر نکل آیا نکل آیا
ہمارے خوں بہا کا غیر سے دعویٰ ہے قاتل کو
یہ بعد انفصال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا
ہوئی بلبل ثنا خوان دہان تنگ کس گل کی
کہ فروردی میں غنچہ کا منہ اتنا سا نکل آیا
کوئی تیر اس کا دل میں رہ گیا تھا کیا کہ آنکھوں سے
ابھی رونے میں اک پیکان کا ٹکڑا نکل آیا
دمِ بسمل یہ کس کے خوف سے ہم پی گئے آنسو
کہ ہر زخمِ بدن سے خون کا دریا نکل آیا
خدنگ یار کے ہم راہ نکلی جان سینے سے
یہی ارمان اک مدت سے جی میں تھا نکل آیا
بہت نازاں ہے تو اے قیس پر وحشت دکھاؤں گا
کتابوں میں کبھو قصہ جو مومنؔ کا نکل آیا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست