بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں

باقی صدیقی


دل کے لیے حیات کا پیغام بن گئیں
بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
کچھ لغزشوں سے کام جہاں کے سنور گئے
کچھ جراتیں حیات پر الزام بن گئیں
ہر چند وہ نگاہیں ہمارے لیے نہ تھیں
پھر بھی حریف گردشِ ایام بن گئیں
آنے لگا حیات کو انجام کا خیال
جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں
کچھ کم نہیں جہاں سے جہاں کی مسرتیں
جب پاس آئیں دشمن آرام بن گئیں
باقیؔ جہاں کرے گا مری میکشی پہ رشک
ان کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں
باقیؔ مال شوق کا آنے لگا خیال
جب آرزوئیں پھیل کے اک دام بن گئیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست