درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

جگر مراد آبادی


اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیر پا نہیں ہوتا
وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا
ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا
دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا
میں کہ بے زار عمر بھر کے لیے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا
وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتا نہیں ہوتا
دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
ہو کے اک بار سامنا ان سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست