شمعِ روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا

قمر جلالوی


تم چلے آئے تو رونق پر مزار آ ہی گیا
شمعِ روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا
ہم نہ کہتے تھے ہنسی میں غیر سے وعدہ نہ کر
دیکھنے والوں کو آخر اعتبار آ ہی گیا
کہتے تھے اہلِ قفس گلشن کا اب لیں گے نہ نام
باتوں باتوں میں مگر ذکرِ بہار آ ہی گیا
کتنا سمجھایا تھا تجھ کو دیکھ بڑھ جائے گی بات
فیصلہ آخر کو پیشِ کردگار آ ہی گیا
گو بظاہر میرے افسانے پہ وہ ہنستے رہے
آنکھ میں آنسو مگر بے اختیار آ ہی گیا
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر مرنے کے بعد
جب مری تصویر دیکھی ان کو پیار آ ہی گیا
اے قمر قسمت چمک اٹھی اندھیری رات میں
چاندنی چھپتے ہی کوئی پردہ دار آ ہی گیا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست