کہتے ہیں جسے عشق ہے ایمان ہمارا

امام بخش ناسخ


وہ روئے کتابی تو ہے قرآن ہمارا
کہتے ہیں جسے عشق ہے ایمان ہمارا
ہاتھوں کی شکایت ہے ہمیں دشتِ جنوں میں
پاؤں میں الجھتا ہے گریبان ہمارا
ہر صبح دکھاتا ہے ہمیں جلوہ پری کا
بالائے ہوا دار سلیمان ہمارا
ہیں مردم غم دیدہ کے دانتوں کی طرح بند
مثل دہن ننگ ہے زندان ہمارا
ہم خانہ خرابوں سے ملے کیا کوئی آ کر
دروازۂِ افتادہ ہے دربان ہمارا
رہتا ہے ہمیں دھیان تمہارا ہی ہمیشہ
تم کو نہیں آتا ہے کبھی دھیان ہمارا
آ جائے ابھی جان میں جان آؤ اگر تم
تن ہجر میں بے جان ہے اے جان ہمارا
بے کھٹکے توحش میں نہ کیوں دوڑتے پھریے
پہلو میں ہے بے خار بیابان ہمارا
لی جان خدا نے کسی بت نے نہ کیا قتل
نکلا نہ دمِ مرگ بھی ارمان ہمارا
لی ہم نے بلا اپنے ہی سر سب کو بچایا
اے جان ہے اغیار پہ احسان ہمارا
ہر بیت میں اک شاہد معنی کی ہے تصویر
ناسخؔ ہے مرقع نہیں دیوان ہمارا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست