وہ بے نیاز تھا اتنا تو کیوں خدا نہ ہوا

ظہیر کاشمیری


مرا ہی بن کے وہ بت مجھ سے آشنا نہ ہوا
وہ بے نیاز تھا اتنا تو کیوں خدا نہ ہوا
شکن ہمیشہ جبیں پر رہے تو عادت ہے
مجھے یقیں ہے وہ مجھ سے کبھی خفا نہ ہوا
تمام عمر تری ہمرہی کا شوق رہا
مگر یہ رنج کہ میں موجۂ صبا نہ ہوا
حجابِ حسن سے بڑھتی ہے وار عریانی
یہی سبب ہے میں آزردۂ‌ حیا نہ ہوا
نشاط ہجر کا خوگر بنا دیا ہوتا
جفائے یار سے اتنا بھی حق ادا نہ ہوا
حیات و ہجر کا خود میں نے انتخاب کیا
میں قید کب تھا جو میں قید سے رہا نہ ہوا
دیار درد میں دل نے بہت تلاش کیا
نصیبِ عشق مگر تیرا نقشِ پا نہ ہوا
ظہیرؔ سوزِ دروں بھی عجب کرشمہ ہے
میں دور رہ کے بھی اس سے کبھی جدا نہ ہوا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست