آشفتہ دل فریفتہِ دل بے قرار دل

داغ دہلوی


مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
آشفتہ دل فریفتہِ دل بے قرار دل
ہر بار مانگتی ہیں نیا چشمِ یار دل
اک دل کے کس طرح سے بناؤں ہزار دل
مشہور ہو گئی ہے زیارت شہید کی
خوں کشتہ آرزو کا بنا ہے مزار دل
یہ صید گاہ عشق ہے ٹھہرائیے نگاہ
صیاد مضطرب سے نہ ہو گا شکار دل
طوفانِ نوح بھی ہو تو مل جائے خاک میں
اللٰہ رے غبار ترا پر غبارِ دل
پوچھا جو اس نے طالب روزِ جزا ہے کون
نکلا مری زبان سے بے اختیار دل
کرتے ہو عہد وصل تو اتنا رہے خیال
پیمان سے زیادہ ہے ناپائیدار دل
تاثیر عشق یہ ہے ترے عہد حسن میں
مٹی کا بھی بنائیں تو ہو بے قرار دل
اس کی تلاش ہے کہ نظر آئے آرزو
ظالم نے روز چاک کیے ہیں ہزار دل
عالمِ ہوا تمام رہا اس کو شوق حور
برسائے آسمان سے پروردگار دل
پہلے پہل کی چاہ کا کیجے نہ امتحاں
آنا تو سیکھ لے ابھی دو چار بار دل
نکلے مری بغل سے وہ ایسے تڑپ کے ساتھ
یاد آ گیا مجھے وہیں بے اختیار دل
اے عندلیب تجھ کو لگے کب ہوائے عشق
کلیوں کی طرح تجھ میں نہ پھوٹے ہزار دل
عاشق ہوئے وہ جیسے عدو پر یہ حال ہے
رکھ کہہ کے ہاتھ دیکھتے ہیں بار بار دل
اس نے کہا ہے صبر پڑے گا رقیب کا
لے اور بے قرار ہوا بے قرار دل
بیتاب ہو کے بزم سے اس کی اٹھا دیا
غافل میں ہوں مگر ہے بہت ہشیار دل
مشہور ہیں سکندر و جم کی نشانیاں
اے داغؔ چھوڑ جائیں گے ہم یادگار دل
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست