شمع ہے اک سوزن گم گشتہ اس کاشانہ میں

شیخ ابراہیم ذوق


دود دل سے ہے یہ تاریکی مرے غم خانہ میں
شمع ہے اک سوزن گم گشتہ اس کاشانہ میں
میں ہوں وہ خشت کہن مدت سے اس ویرانے میں
برسوں مسجد میں رہا برسوں رہا مے خانہ میں
میں وہ کیفی ہوں کہ پانی ہو تو بن جائے شراب
جوش کیفیت سے میری خاک کے پیمانہ میں
برقِ خرمن سوز دانائی ہے نافہمی تری
ورنہ کیا کیا لہلہاتے کھیت ہیں ہر دانہ میں
کس نزاکت سے ہے دیکھو اتحاد حسن و عشق
زلف واں شانے نے کھینچی درد ہے یاں شانہ میں
وحشت و ناآشنائی مستی و بیگانگی
یا تری آنکھوں میں دیکھی یا ترے دیوانہ میں
عشق کو نشوونما منظور ہے کب ورنہ سبز
تخم اشک شمع ہو خاکستر پروانہ میں
ہوش کا دعویٰ ہے بے ہوشوں کو زیر آسماں
خم نشیں مثل فلاطوں سب ہیں اس خم خانہ میں
پتھروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے ناحق سیل آب
پوچھو کیا لے جائے گا آ کر مرے غم خانہ میں
ایک پتھر پوجنے کو شیخ جی کعبے گئے
ذوقؔ ہر بت قابل بوسہ ہے اس بت خانہ میں
فہرست