وہ اپنی جانماز ہے اور یہ نماز ہے

شیخ ابراہیم ذوق


اس سنگ آستاں پہ جبینِ نیاز ہے
وہ اپنی جانماز ہے اور یہ نماز ہے
ناساز ہے جو ہم سے اسی سے یہ ساز ہے
کیا خوب دل ہے واہ ہمیں جس پہ ناز ہے
پہنچا ہے شب کمند لگا کر وہاں رقیب
سچ ہے حرام زادے کی رسی دراز ہے
اس بت پہ گر خدا بھی ہو عاشق تو آئے رشک
ہرچند جانتا ہوں کہ وہ پاکباز ہے
مداح خال روئے بتاں ہوں مجھے خدا
بخشے تو کیا عجب کہ وہ نکتہ نواز ہے
ڈرتا ہوں خنجر اس کا نہ بہہ جائے ہو کے آب
میرے گلے میں نالۂِ آہن گداز ہے
دروازہ مے کدے کا نہ کر بند محتسب
ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے
خانہ خرابیاں دلِ بیمار غم کی دیکھ
وہ ہی دوا خراب ہے جو خانہ ساز ہے
شبنم کی جائے گل سے ٹپکتی ہیں شوخیاں
گلشن میں کس کی خاک شہیدان ناز ہے
آہ و فغاں نہ کر جو کھلے ذوقؔ دل کا حال
ہر نالہ اک کلید در گنج راز ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست