دھوکا سا ایک ہم کو دکھا کر چلے گئے

مصحفی غلام ہمدانی


سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے
دھوکا سا ایک ہم کو دکھا کر چلے گئے
کی ہم سے باغباں نے یہ کاوش کہ آخرش
ہم آشیاں کو آگ لگا کر چلے گئے
ہونے دیا نہ مجھ سے تمہیں شرم نے دو چار
جب مل گئے تو سر کو جھکا کر چلے گئے
آتا ہوا جو دور سے دیکھا مجھے تو وے
رستے میں مجھ سے منہ کو چھپا کر چلے گئے
اب میں ہوں اور وہ زلف ہے یاران بے وفا
دام بلا میں مجھ کو پھنسا کر چلے گئے
ٹھوکر سے اپنے پانو کے گلشن میں خوش قداں
صد فتنہ ہائے خفتہ جگا کر چلے گئے
ہے غیر سے بھی ربط تمہیں میں جو یہ کہا
سوگند میرے سر کی وہ کھا کر چلے گئے
آئے کبھی جو باغ میں دیوانگان دشت
آنکھوں سے جوئے خون بہا کر چلے گئے
ہرگز رہا نہ ان کا نشاں وہ جو مصحفیؔ
قصر و محل زمیں پہ بنا کر چلے گئے
فہرست