مجھ سا تو کوئی بندۂِ فرماں نہ ملے گا

مصحفی غلام ہمدانی


عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
مجھ سا تو کوئی بندۂِ فرماں نہ ملے گا
ہوں منتظر لطف کھڑا کب سے ادھر دیکھ
کیا مجھ کو دل اے طرۂِ جاناں نہ ملے گا
کہنے کو مسلماں ہیں سبھی کعبے میں لیکن
ڈھونڈوگے اگر ایک مسلماں نہ ملے گا
ناصح اسے سینا ہے تو اب سی لے وگرنہ
پھر فصلِ گل آئے یہ گریباں نہ ملے گا
رہنے کے لیے ہم سے گنہ گاروں کے یا رب
کیا شہر عدم میں کوئی زنداں نہ ملے گا
ہونے کی نہیں تیری خوشی سرو خراماں
تا خاک میں یہ بے سر و ساماں نہ ملے گا
دل اس سے تو مانگے ہے عبث مصحفیؔ ہر دم
کیا فائدہ اصرار کا ناداں نہ ملے گا
فہرست