موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا

جگر مراد آبادی


دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا
صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہِ دام آ گیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لبِ بام آ گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست