کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی


دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیائے دلِ تباہ کیے جا رہا ہوں میں
صرف نگاہ و آہ کیے جا رہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنی بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغِ راہ کیے جا رہا ہوں میں
معصومی جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو
نادیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست