زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

جگر مراد آبادی


عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بے کراں ہوتا نہیں بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دل نشیں
عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دلِ انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
میرے عرضِ غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے
شکوۂ غم شیوۂ اہلِ وفا ہوتا نہیں
اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہی جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطا ہوتا نہیں
ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں
اللٰہ اللٰہ یہ کمال اور ارتباط حسن و عشق
فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگرؔ
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست