رقص وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں

سراج الدین ظفر


شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں
رقص وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں
ساتھ اگر بادِ سحر دے تو پس محمل یار
اک بھٹکتی ہوئی آوازِ فغاں ہو جاؤں
اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات
نفس سرد سے بھی شعلہ بجاں ہو جاؤں
لا صراحی کہ کروں وہم و گماں غرق شراب
اس سے پہلے کہ میں خود وہم و گماں ہو جاؤں
وہ تماشا ہوں ہزاروں مرے آئینے ہیں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں
شوق میں ضبط ہے ملحوظ مگر کیا معلوم
کس گھڑی بے خبر سود و زیاں ہو جاؤں
ایسا انداز غزل ہو کہ زمانے میں ظفرؔ
دورِ آئندہ کی قدر وں کا نشاں ہو جاؤں
فہرست