عادتیں کیوں خراب کرتے ہو

عبدالحمید عدم


مسکرا کر خطاب کرتے ہو
عادتیں کیوں خراب کرتے ہو
مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر
کیا یہ کارِ ثواب کرتے ہو
مفلسی اور کس کو کہتے ہیں!
دولتوں کا حساب کرتے ہو
صرف اک التجا ہے چھوٹی سی
کیا اسے باریاب کرتے ہو
ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے
تم کسے انتخاب کرتے ہو
خار کی نوک کو لہو دے کر
انتظار گلاب کرتے ہو
یہ نئی احتیاط دیکھی ہے
آئنے سے حجاب کرتے ہو
کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی
کیوں کلیجا کباب کرتے ہو
ہو چکا جو حساب ہونا تھا
اور اب کیا حساب کرتے ہو
ایک دن اے عدمؔ نہ پی تو کیا
روز شغل شراب کرتے ہو
کتنے بے رحم ہو عدمؔ تم بھی
ذکر عہدِ شباب کرتے ہو
ہو کسی کی خوشی گر اس میں عدمؔ
جرم کا ارتکاب کرتے ہو
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست