پانی لاؤں دریا سے

رئیس فروغؔ


پیاسے آئے صحرا سے
پانی لاؤں دریا سے
پنچھی شور مچاتے ہیں
سورج نکلے کٹیا سے
تو مجھے اپنی آنکھیں دے
بالک بولا بابا سے
بوڑھی ہے تو ہونے دو
پیار کروں گا دنیا سے
اپنی قمیصیں سلوائیں
میں نے ایک زلیخا سے
میں جھوٹے ملہار سنوں
ایک سیانی مینا سے
رکتی ٹھہرتی لہریں لوں
چلتی پھرتی ندیا سے
رم جھم کا بیوپار کروں
شہروں والی برکھا سے
کچے رنگ چرائے ہیں
میں نے ایک سراپا سے
جیون بھر کی بات نہ کر
ہم ایسے بے پروا سے
جب تک آ کے جائے نہیں
آس لگاؤں فردا سے
موسم سے ٹکراؤ میں ہے
اپنا حال ہمیشہ سے
فہرست