کوئی سورج تھا کسی دنیا میں

رئیس فروغؔ


یہ جو حسن ہے میری تمنا میں
کوئی سورج تھا کسی دنیا میں
مرا آنگن جس کے خواب سجے
کوئی ایسی لہر ہے صحرا میں
مجھے پیارا کھیل سرابوں کا
مرا شہر بسا ہے دریا میں
وہاں بدلی اوڑھ کے سو جانا
جہاں پانی آئے نیا میں
یونہی شور مچاتا مر جاؤں
بڑا تیز مزہ ہے برکھا میں
ترا ہجر بسیرے لیتا ہے
مرے جھلمل جھلمل فردا میں
اسی رات میں تجھ سے ملنا تھا
یہی رات بتائی برہا میں
کبھی آگ بنیں کبھی خاک بنیں
ترے جگنو میری کویتا میں
ہوئی اب کے برس اک بات نئی
ترا درد نہ چمکا پروا میں
تجھے پاس بٹھا کے دیکھوں گا
کسی روز خیال تنہا میں
فہرست