صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں

احسان دانش


رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں
صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں
حال و مستقبل کا کیا ہم کو سبق دیتے ہیں آپ
اس قدر تو واقف امروز و فردا ہم بھی ہیں
بادل نا خواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لیے
ورنہ سچ یہ ہے پشیمان تمنا ہم بھی ہیں
کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کا ساز باز
دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ہم بھی ہیں
دیکھنا ہے دیکھ لو اٹھتی ہوئی محفل کا رنگ
صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں
کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر شکل حیات
ریت کی چادر پہ اک نقشِ کفِ پا ہم بھی ہیں
جا بہ جا بکھرے نظر آتے ہیں آثار قدیم
پی گئیں جس کو گزر گاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں
اس حرم کی زیب و زینت کو خدا رکھے مگر
مجرمان عہد و پیمان کلیسا ہم بھی ہیں
ہم سے گونجا ہے عدم آباد کا دشت سکوت
عالم ارواح کا پہلا دھماکا ہم بھی ہیں
ہم جب اٹھ جائیں گے یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا
رونقِ محفل چراغوں کے علاوہ ہم بھی ہیں
خاک کیوں ہوتا نہیں جل کر حصار آب و گل
یہ اگر سچ ہے ترے جلووں کا پردہ ہم بھی ہیں
ہم پہ جانے کون سا طوفان تھوپا جائے گا
جانے کس تعزیر کی خاطر گوارا ہم بھی ہیں
یہ سر فہرست اور احسان دانشؔ شادباش
مجرموں میں آپ کے نزدیک گویا ہم بھی ہیں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست