مگر حضرت داغؔ کب چاہتے ہیں

داغ دہلوی


محبت میں آرام سب چاہتے ہیں
مگر حضرت داغؔ کب چاہتے ہیں
خطا کیا ہے ان کی جو اس بت کو چاہا
خدا چاہتا ہے تو سب چاہتے ہیں
وہی ان کا مطلوب و محبوب ٹھہرا
بجا ہے جو اس کی طلب چاہتے ہیں
مگر عالمِ یاس میں تنگ آ کر
یہ سامان آفت عجب چاہتے ہیں
اجل کی دعا ہر گھڑی مانگتے ہیں
غم و درد و رنج و تعب چاہتے ہیں
نہ تفریح آسائش دل کی خواہش
نہ سامانِ عیش و طرب چاہتے ہیں
قیامت بپا ہو نزول بلا ہو
یہی آج کل روز و شب چاہتے ہیں
نہ معشوق فرخار سے ان کو مطلب
نہ یہ جام بنتِ العنب چاہتے ہیں
نہ جنت کی حسرت نہ حوروں کی پروا
نہ کوئی خوشی کا سبب چاہتے ہیں
نرالی تمنا ہے اہلِ کرم سے
ستم چاہتے ہیں غضب چاہتے ہیں
نہ ہو کوئی آگاہ رازِ نہاں سے
خموشی کو یہ مہر لب چاہتے ہیں
خدا ان کی چاہت سے محفوظ رکھے
یہ آزار بھی منتخب چاہتے ہیں
غمِ عشق میں داغؔ مجبور ہو کر
کبھی جو نہ چاہا وہ اب چاہتے ہیں
فہرست