یوں ہی عاشق کی ہے عذاب میں جان

مصحفی غلام ہمدانی


منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان
یوں ہی عاشق کی ہے عذاب میں جان
جوں سی چٹکی میں لے کے مل ڈالی
ہم سے عاشق کی ہے عذاب میں جان
خوبی حسن نے تری نہ رکھی
باقی اک ذرہ شیخ و شاب میں جان
کس کی زلفوں کے پیچ و تاب سے ہے
رات دن میری پیچ و تاب میں جان
سخت مشتاق ہے تمہارا دل
منہ دکھاؤ کبھی تو خواب میں جان
ایک دن تم نے کی نہ بات کبھو
مر گئے ہم تو اس حجاب میں جان
نت ترے انتظار غسل سے ہے
بحر کے دیدۂِ حباب میں جان
مہ نے اے شہسوار عرصۂِ حسن
عاقبت دی تری رکاب میں جان
اس نے بھر کر نگاہ دیکھا تھا
نہیں اس دن سے آفتاب میں جان
سر آتش جو اشک ریزاں تھا
کسی عاشق کی تھی کباب میں جان
مصحفیؔ تھا ز بسکہ عاشق شعر
مرتے مرتے رہی کتاب میں جان
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست