یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی


سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے ، کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتیہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
زہر کا ذکر کیا کرتے تھے
پی کے شرب کا پیالہ پہلے
دیکھتے رہے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست