فقیر کس درجہ
شادماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
حضور کس درجہ
مہرباں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
وہ مے کدہ تھا صنم کدہ تھا کہ باب جنت کھلے ہوئے تھے
تمام شب آپ ہم
کہاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
وہاں بہاروں کے زمزمے تھے وہاں نگاروں کے جمگھٹے تھے
وہاں ستاروں کے
کارواں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
پہن کے پھولوں کے تاجِ سر پر حسین و شاداب مسندوں پر
سبو بکف کون
حکمراں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
مراحل راحت و اماں تھے مسائل ماہ و کہکشاں تھے
مشاغل حرف و
داستاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
اگرچہ شوق و طلب تھے بے ساختہ ہم آغوشیوں پہ مائل
کئی تکلف بھی
درمیاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
لطیف شامیں طبیعتوں کے ضمیر سے خوب آشنا تھیں
حسیں سویرے مزاج
داں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
نظر کی حد تک محیط تھا سلسلہ مہکتے ہوئے گلوں کا
گلوں میں پریوں کے گھر
نہاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
عجیب سانچے کی کشتیاں بہہ رہی تھیں لہروں کے زیر و بم پر
عجیب صورت کے
بادباں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
الوہیت آپ اس حسیں اتفاق پر مسکرا رہی تھی
صنم خداؤں کے
میہماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
جو واقعے تھے وہ گونجتے زمزموں کے مانند موجزن تھے
جو خواب تھے سرو
بوستاں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
کہیں کہیں سلسبیل و کوثر کی جوت موجود تھی زمیں پر
کہیں کہیں عرش و
آسماں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا
شب محبت حضور کی کاکلوں کے کھلنے کے سلسلے میں
عدمؔ کے اصرار کیا
جواں تھے حضور کو کچھ تو یاد ہو گا