خزاں چمن سے گئی موسمِ بہار آیا

امام بخش ناسخ


قدح لیے ہوئے گل مثل بادہ خوار آیا
خزاں چمن سے گئی موسمِ بہار آیا
کسی طریق سے دل میں اگر غبار آیا
ہوا یقین یہ مجھ کو وہ شہ سوار آیا
تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی
شبِ فراق گئی روز انتظار آیا
گل سوار و پیادہ شکست کھا گئے سب
چمن میں جب تنِ تنہا وہ شہسوار آیا
خبر کرے کوئی زاہد کو آئے بہر مدد
شکست توبہ کو پھر موسمِ بہار آیا
شراب کیوں نہ چلے فصلِ گل میں اے زاہد
کہ نہریں جاری ہوئیں موسمِ بہار آیا
دیے فلک نے مرے سر کو کٹتے ہی گل داغ
گلہ نہیں کوئی پاؤں تلے جو خار آیا
چمن میں کوئی گلِ تر جو شاخ پر دیکھا
تو مجھ کو یاد وہ محبوب نے سوار آیا
کبھی جو سیرِ چمن کو وہ نے سوار گیا
گل پیادہ یہ سمجھے کہ گل سوار آیا
لب اس کے پستہ ذقن سیب آنکھیں ہیں بادام
کھلے جو دانت ہنسی میں نظر انار آیا
جو گوشِ گل نہ سنے باغ میں تو کیا چارہ
قفس سے نالۂِ بلبل ہزار بار آیا
تری سواری میں کب پنج شاخے ہیں اے سرو
جلو میں صحنِ گلستاں سے ہے چنار آیا
شکست پائی ہے توبہ کی طرح اس کو بھی
ہمارے پاس جو اے مے کشو خمار آیا
یہ نازکی کے ہیں معنی کے باغ میں وہ گل
قریب آتشِ گل جو گیا بخار آیا
کبھی نہ قطرہ دیا تو نے ساقیا مجھ کو
ادھر نہ آتش مے کا کوئی شرار آیا
مثال سنگِ گراں جاں نہیں جو بیٹھ رہوں
کہ اس جہان میں ہوں صورت شرار آیا
لگا جو تیر ترا سینۂِ مشبک میں
میں خوش ہوا کہ مرے دام میں شکار آیا
دکھا کے باغ میں آنکھیں چڑھی ہوئی اپنی
وہ نشہ دیدۂِ نرگس سے آج اتار آیا
فہرست