پڑھوں سلام تو خوشبو کلام سے آئے

عرفان صدیقی


سخن میں موسمِ گل ان کے نام سے آئے
پڑھوں سلام تو خوشبو کلام سے آئے
شگفت اسم محمد کا وقت ہے دل میں
یہاں نسیمِ سحر احترام سے آئے
وہی سراج منیر آخری ستارۂ غیب
اجالے سب اسی ماہِ تمام سے آئے
وہ جس کو نانِ جویں بخش دیں اسی کے لیے
خراج مملکت روم و شام سے آئے
انہیں سے ہو دل و جاں پر سکینیوں کا نزول
قرار ان کے ہی فیضان عام سے آئے
انہیں کے نام سے قائم رہے وجود مرا
نمو کی تاب انہیں کے پیام سے آئے
میں ان کا حرف ثنا اپنی دھڑکنوں میں سنوں
وہی صدا مرے دیوار و بام سے آئے
یہ بے کسان گرفتار سب انہیں کے طفیل
نکل کے حلقۂ زنجیر و دام سے آئے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست