دے ایسے اور حق مجھے اغیار چار پانچ

انشاء اللہ خان انشا


امرد ہوئے ہیں تیرے خریدار چار پانچ
دے ایسے اور حق مجھے اغیار چار پانچ
جب گدگداتے ہیں تجھے ہم اور ڈھب سے تب
سہتے ہیں گالیاں تری نا چار چار پانچ
کل یوں کہا کہ ٹک تو ٹھہر لے تو بولے آپ
ہیں منتظر مرے سرِ بازار چار پانچ
او جانے والے شخص ٹک اک مڑ کے دیکھ لے
یاں بھی تڑپ رہے ہیں گناہ گار چار پانچ
صیاد لے خبر کہ دیا چاہتے ہیں جان
کنجِ قفس میں تازہ گرفتار چار پانچ
میاں ہم بھی کوئی قہر ہیں جب دیکھو تب لیے
بیٹھے ہیں اپنے پاس طرحدار چار پانچ
چپکے سے تم جو کہتے ہو ہیں اپنے آشنا
شعلہ بھبھوکے اور دھواں دھار چار پانچ
ہر ایک ان سے شوخ ہے کیا خوب بات ہو
لگ جائیں تیرے ہاتھ جو یک بار چار پانچ
تو ان کو چاہ چھوڑ مجھے واچھڑے چے خوش
رکھے ہیں میرے واسطے دل دار چار پانچ
ہے کام ایک ہی سے وہ چولھے میں سب پڑیں
صدقے کیے تھے ایسے وہ فی النار چار پانچ
صاحب تمہیں تمہیں نہیں ہرگز نہیں نہیں
مجھ کو نہیں نہیں نہیں درکار چار پانچ
میرؔ و قتیلؔ و مصحفیؔ و جرأتؔ و مکیںؔ
ہیں شاعروں میں یہ جو نمودار چار پانچ
سو خوب جانتے ہیں کہ ہر ایک رنگ کے
انشاؔ کی ہر غزل میں ہیں اشعار چار پانچ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست