ہاتھ نکلے اپنے دونوں
کام کے
دل کو تھاما ان کا دامن
تھام کے
گھونٹ پی کر بادۂِ
گلفام کے
بوسے لے لیتا ہوں خالی
جام کے
رات دن پھرتا ہے کیوں اے چرخِ پیر
تیرے دن ہیں راحت و
آرام کے
اس نزاکت کا برا ہو بزم سے
اٹھتے ہیں وہ دست دشمن
تھام کے
چشمِ مست یار کی اک دھوم ہے
آج کل ہیں دور دورِ
جام کے
یا جگر میں یا رہے گا دل میں تیر
یہ ہی دو گوشے تو ہیں
آرام کے
وہ کریں عذر وفا اچھی کہی
مجھ پہ ردے رکھتے ہیں
الزام کے
جب قدم کعبے سے رکھا سوئے دیر
تار الجھے جامۂِ
احرام کے
خوش ہیں وہ دورِ فلک سے آج کل
دن پھرے ہیں گردشِ
ایام کے
آ گیا ہے بھول کر خط اس طرف
وہ تو عاشق ہیں مرے ہم
نام کے
ہاتھ سے صیاد کے گر کر چھری
قاصدوں کے منتظر رہنے لگے
پڑ گئے ان کو مزے
پیغام کے
کیا کسی درگاہ میں جانا ہے آج
پوچھتے ہیں حضرت زاہد سے رند
دام کیا ہیں جامۂِ
احرام کے
لب اتر آئے ہیں وہ تعریف پر
ہم جو عادی ہو گئے
دشنام کے
دعویٰ عشق و وفا پر یہ کہا
سب بجا لیکن مرے کس
کام کے
بن سنور کر کب بگڑتا ہے بناؤ
صبح تک رہتے ہیں جلوے
شام کے
جور سے یا لطف سے پورا کیا
آپ پیچھے پڑ گئے جس
کام کے
ہے گدائے مے کدہ بھی کیا حریص
بھر لیے جھولی میں ٹکڑے
جام کے
نالہ و فریاد کی طاقت کہاں
بات کرتا ہوں کلیجا
تھام کے
خوگر بیداد کو راحت ہے موت
بھاگتا ہوں نام سے
آرام کے
داغؔ کے سب حرف لکھتے ہیں جدا
ٹکڑے کر ڈالے ہمارے
نام کے