کسی کا پیرہن حسن تار تار نہ ہو

یگانہ چنگیزی


خزاں کے جور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پیرہن حسن تار تار نہ ہو
برنگ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وفا کا امیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی بہار آنے دے
ابھی سے بہرِ خدا اتنا بے قرار نہ ہو
ٹپک کے آنکھوں سے آئے لہو جو دامن تک
تو اس بہار سے بہتر کوئی بہار نہ ہو
حیا کی بات ہے اب تک قفس میں زندہ ہوں
چمن میں جاؤں تو نرگس سے آنکھ چار نہ ہو
بہار آئی ہے گھٹ گھٹ کے جان دے بلبل
قفس میں نکہتِ گل کی امیدوار نہ ہو
اشارۂ گل و بلبل پہ چشمک نرگس
الٰہی راز کسی کا بھی آشکار نہ ہو
بچھا ہے دامِ تمنا اسیر ہو بلبل
قفس کی یاد میں اس طرح بے قرار نہ ہو
اسیرِ دام نہ ہونا ذرا سنبھل اے دل
خیال گیسوئے پر خم گلے کا بار نہ ہو
جو دیکھ لے مجھے ساقی نشیلی آنکھوں سے
یہ مست پھر کبھی شرمندۂ خمار نہ ہو
عبث ہے ذکر شرابِ طہور اور واعظ
وہ بات کر جو کسی دل کو ناگوار نہ ہو
وصال جب نہیں ممکن تو دل پہ جبر اچھا
وہ کیا کرے جسے دل ہی پر اختیار نہ ہو
وہ تیر کیا جو کسی کو نہ کر سکے بسمل
نگاہِ ناز وہ کیا ہے جو دل کے پار نہ ہو
مزاجِ یار مکدر نہ ہونے پائے یاسؔ
بلند دامن زیں کہیں سے غبار نہ ہو
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست