بس یہی تجھ سے یار ہونا تھا

مومن خان مومن


غصہ بیگانہ وار ہونا تھا
بس یہی تجھ سے یار ہونا تھا
کیا شبِ انتظار ہونا تھا
ناحق امیدوار ہونا تھا
کیوں نہ ہوتے عزیز غیر تمہیں
میری قسمت میں خوار ہونا تھا
مجھ سے جنت میں وہ صنم نہ ملا
حشر اور ایک بار ہونا تھا
گر نہ تھی اے دل اس کے رنج کی تعب
کیوں شکایت گزار ہونا تھا
خاک ہوتا نہ میں تو کیا کرتا
اس کے در کا غبار ہونا تھا
ہرزہ گردی سے ہم ذلیل ہوئے
چرخ کا اعتبار ہونا تھا
مرگ شام وصال حرماں ہے
صبح دم جاں نثار ہونا تھا
اور سے ہمکنار ہے دشمن
آج تو ہمکنار ہونا تھا
شکوۂِ دہر پر کہا تم کو
آفتِ روزگار ہونا تھا
چشم بے اختیار جاناں میں
کیا مرا اختیار ہونا تھا
صبر کر صبر ہو چکا جو کچھ
اے دل بے قرار ہونا تھا
کوئے دشمن میں جا پکڑتا کیوں
کیا مجھے شرمسار ہونا تھا
وہ نمک پاش بھی نہیں ہوتے
یوں ہی دل کو فگار ہونا تھا
خاک میں حیف یہ شراب ملے
محتسب بادہ خوار ہونا تھا
نہ گیا تیر نالہ سوئے رقیب
مرغ عرشی شکار ہونا تھا
رات دن بادہ و صنم مومنؔ
کچھ تو پرہیزگار ہونا تھا
فہرست