16 دسمبر 1752 ۔ 19 مئی 1817

انشاء اللہ خان انشا
سید انشاء اللہ خان انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور اردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔
مزید

25 مئی 1831 ۔ 17 مارچ 1905

داغ دہلوی
داغ دہلوی اردو غزل کے چند بڑے شعرا میں سے ایک ہیں۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔
مزید

15 مئی 1833 ۔ 15 مئی 1903

میر مہدی مجروح
میر مہدی مجروح کے نام سےان کے ہمعصر اور ہم رتبہ شاعروں کے مقابلہ میں ،ہماری زیادہ واقفیت خطوط غالب کی مرہون منت ہے۔مجروح غالب کے ان شاگردوں میں تھے جنہیں وہ بیحد عزیز رکھتے تھے اور انھیں اپنا "فرزند" کہتے تھے۔شاعری میں ہی نہیں ان کی نجی زندگی میں بھی غالب نے مجروح کی ہر طرح مدد اور رہنمائی کی۔شاعری
مزید

14 مئی 1800 ۔ 14 مئی 1851

مومن خان مومن
مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
مزید

29 جون 1914 ۔ 11 مئی 1974

مجید امجد
اردو نظم کی آبرو مجید امجد ایک رجحان ساز شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے آزاد نظم کو ایک سمت دی جس کی وجہ سے اس صنف کا سفر کامیاب رہا۔
مزید

25 مارچ 1912 ۔ 06 مئی 1972

سراج الدین ظفر
سراج الدین ظفر اردو زبان کے پاکستان سے تعلق رکھنے و الے نامور شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ جنہوں نے اردو شاعری میں اپنا بھرپور تاثر قائم کیا۔
مزید

جتنا ارزاں بکوں گراں ہوں میں

میر مہدی مجروح


بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
جتنا ارزاں بکوں گراں ہوں میں
نہ یہاں اور نہ اب وہاں ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں جہاں ہوں میں
یاد میں ہے کسی کی استغراق
کون پہنچے وہاں جہاں ہوں میں
مدد اے نغمہ‌ سنجی بلبل
کب سے گم کردہ آشیاں ہوں میں
ڈھب ہے یہ یار تک پہنچنے کا
کاش قاصد ہی کا بیاں ہوں میں
نے کی مانند خشک ہیں اعضا
کیوں نہ سر تا بہ پا فغاں ہوں میں
لطف پایا ہے خاکساری میں
ہوں زمیں گو کہ آسماں ہوں میں
کس نے جلوہ دکھا دیا ہے آج
زمزمہ سنج الاماں ہوں میں
تا کجا تیز گامیاں بس کر
توسن شوقِ ہم عناں ہوں میں
گرد دیتی ہے کارواں کا پتا
یادگار گزشتگاں ہوں میں
جان کیوں کر نثار مقدم ہو
اب وہ آئے کہ نیم جاں ہوں میں
کیا نہیں یاد برق کا گرنا
پھر بناتا جو آشیاں ہوں میں
یہ سفر دیکھیے کہاں ہو تمام
مثل ریگِ رواں رواں ہوں میں
کوئی اس عہد میں نہیں ہے شفیق
آپ اپنے پہ مہرباں ہوں میں
دیکھ پچھتائے گا نہ لے کے مجھے
مایۂ نازش دکاں ہوں میں
عشق میں سو بلائیں لیں سر پر
اپنے حق میں خود آسماں ہوں میں
قدر کیوں خوان دہر پر ہو مری
سچ ہے نا خواندہ مہماں ہوں میں
اول شب ہی ہجر میں ان کے
ڈھونڈتا خنجر و سناں ہوں میں
نہ ٹلا اس کے در سے اے مجروحؔ
دوسرا سنگ آستاں ہوں میں