24 اکتوبر 1775 ۔ 07 نومبر 1862

بہادر شاہ ظفر
خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ اور اردو کے ایک بہترین و مایا ناز شاعر اور ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ انگریز کے ہاتھوں جلاوطن ہو جانے کے بعد انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہاردو ادب کا اثاثہ ہیں۔
مزید

14 دسمبر 1937 ۔ 08 نومبر 2002

جون ایلیا
جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔
مزید

12 نومبر 1844 ۔ 01 نومبر 1917

اسماعیل میرٹھی
مولوی اسماعیل میرٹھی کا شمار اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لئے بے مثال نظمیں تخلیق کیں
مزید

01 اکتوبر 1934 ۔ 12 نومبر 1966

شکیب جلالی
جدید اردو غزل کی آبرو، شکیب جلالی برِّصغیر کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب کے حلقوں میں پہلے ہی ان کا نام ایک چونکا دینے والے شاعر کے طور پر سامنے آ چکا تھا لیکن جواں سالی میں خودکشی کی وجہ سے ہر خاص و عام کی نظر میں آئے اور اپنی شاندار غزلوں سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے
مزید

01 اگست 1790 ۔ 01 نومبر 1854

شیخ ابراہیم ذوق
مغلیہ سلطنت کے برائے نام بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں، ملک الشعراء کے خطاب سے نوازے جانے والے ذوق اپنے زمانہ کے دوسرے اہم شاعروں غالب اور مومن سے بڑے شاعر مانے جاتے تھے.
مزید

13 فروری 1911 ۔ 20 نومبر 1984

فیض احمد فیض
اردو کے مشہور شاعراور انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔
مزید

داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی

قمر جلالوی


سامنے تصویر رکھ کر اس ستم ایجاد کی
داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی
کیا کروں چونکے نہ وہ قسمت دلِ نا شاد کی
جس قدر فریاد مجھ سے ہو سی فریاد کی
اس قدر رویا کہ ہچکی بندھ گئے صیاد کی
لاش جب نکلی قفس سے بلبلِ نا شاد کی
دفن سے پہلے اعزا ان سے جا کر پوچھ لیں
اور تو حسرت کوئی باقی نہیں بے دار کی
کاٹتا ہے پر کے نالوں پر بڑھا دیتا ہے قید
اے اسیرانِ قفس عادت ہے کیا صیاد کی
شام کا ہے وقت قبروں کو نہ ٹھکرا کر چلو
جانے کس عالم میں ہے میت کسی ناشاد کی
دور بیٹھا ہوں ثبوتِ خون چھپائے حشر میں
پاس اتنا ہے کہ رسوائی نہ ہو جلاد کی
کیا مجھی کم بخت کی تربت تھی ٹھوکر کے لیے
تم نے جب دیکھا مجھے مٹی مری برباد کی
کھیل اس کمسنے کا دیکھو نام لے لے کر مرا
ہاتھ سے تربت بنائی پاؤں سے برباد کی
کہہ رہے ہو اب قمر سابا وفا ملتا نہیں
خاک میں مجھ کو ملا بیٹھے تو میری یاد کی
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف