سامنے تصویر رکھ کر اس ستم
ایجاد کی
داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا
شاد کی
کیا کروں چونکے نہ وہ قسمت دلِ نا
شاد کی
جس قدر فریاد مجھ سے ہو سی
فریاد کی
اس قدر رویا کہ ہچکی بندھ گئے
صیاد کی
لاش جب نکلی قفس سے بلبلِ نا
شاد کی
دفن سے پہلے اعزا ان سے جا کر پوچھ لیں
اور تو حسرت کوئی باقی نہیں بے
دار کی
کاٹتا ہے پر کے نالوں پر بڑھا دیتا ہے قید
اے اسیرانِ قفس عادت ہے کیا
صیاد کی
شام کا ہے وقت قبروں کو نہ ٹھکرا کر چلو
جانے کس عالم میں ہے میت کسی
ناشاد کی
دور بیٹھا ہوں ثبوتِ خون چھپائے حشر میں
پاس اتنا ہے کہ رسوائی نہ ہو
جلاد کی
کیا مجھی کم بخت کی تربت تھی ٹھوکر کے لیے
تم نے جب دیکھا مجھے مٹی مری
برباد کی
کھیل اس کمسنے کا دیکھو نام لے لے کر مرا
ہاتھ سے تربت بنائی پاؤں سے
برباد کی
کہہ رہے ہو اب قمر سابا وفا ملتا نہیں
خاک میں مجھ کو ملا بیٹھے تو میری
یاد کی