20 ستمبر 1905 ۔ 08 جنوری 1972

باقی صدیقی
باقی صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور پنجابی کے شاعر، ادیب، ڈراما نگار، فیچر رائٹر اور صحافی تھے۔ باقی صدیقی نے بے شمار پوٹھوہاری گیت اور پنجابی فیچر لکھے۔ ان کی پنجابی نظموں میں نہ صرف پوٹھوہاری الفاظ بلکہ پورے پوٹھوہاری معاشرہ کی جھلک ملتی ہے۔
مزید

01 اکتوبر 1934 ۔ 12 نومبر 1966

شکیب جلالی
جدید اردو غزل کی آبرو، شکیب جلالی برِّصغیر کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب کے حلقوں میں پہلے ہی ان کا نام ایک چونکا دینے والے شاعر کے طور پر سامنے آ چکا تھا لیکن جواں سالی میں خودکشی کی وجہ سے ہر خاص و عام کی نظر میں آئے اور اپنی شاندار غزلوں سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے
مزید

04 اکتوبر 1888 ۔ 04 اکتوبر 1968

قمر جلالوی
قمرجلالوی کلاسیکی اردو غزل کے بہتریں کلاسیکل شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے. ان کی غزل شاعری اظہار اور حسیت کے منفرد شاعر ہیں
مزید

17 اکتوبر 1884 ۔ 04 فروری 1956

یگانہ چنگیزی
یگانہؔ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے۔ حالانکہ انہوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں۔ گو کہ وجہ شہرت یہی ہے کہ خود کو غالب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے۔
مزید

24 اکتوبر 1775 ۔ 07 نومبر 1862

بہادر شاہ ظفر
خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ اور اردو کے ایک بہترین و مایا ناز شاعر اور ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ انگریز کے ہاتھوں جلاوطن ہو جانے کے بعد انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہاردو ادب کا اثاثہ ہیں۔
مزید

10 اپریل 1772 ۔ 16 اگست 1838

امام بخش ناسخ
شیخ امام بخش ناسخ کا شمار اردو کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ناسخ جب فیض آباد سے لکھنؤ آئے تو ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔
مزید

جس طرح جنگ میں ہو قبضے سے شمشیر جدا

امام بخش ناسخ


یوں مجھے آپ سے اب کرتی ہے تقدیر جدا
جس طرح جنگ میں ہو قبضے سے شمشیر جدا
مس کے زر ہونے سے بہتر ہے کمال انساں
خاکساری ہے جدا اور ہے اکسیر جدا
جائے دنداں لب سوفار ہوئے اے قاتل
دہن زخم سے ہو گا نہ ترا تیر جدا
مرض عشق میں پیٹھ اپنی یہ بستر سے لگی
نہ کبھی صفحہ سے جس شکل ہو تصویر جدا
اے جنوں پاؤں ہیں جب تک یہ تمنا ہے مجھے
کبھی مانند رگوں کے نہ ہو زنجیر جدا
چھوڑوں کیا پیری میں شیریں دہنوں کی صحبت
نہیں ممکن کہ ہوں مل کر شکر و شیر جدا
کہتے ہیں دیکھ کے زلف اس کے رخِ تاباں پر
کبھی ہوتا نہیں اس شمع سے گل گیر جدا
جب جدائی کے مضامین مجھے سوجھے ہیں
حرف سے حرف ہوا ہے دمِ تحریر جدا
کیوں نہ ہو جلوۂِ خورشید سے سائے کا وجود
کیا ترے چہرے سے ہو زلفِ گرہ گیر جدا
مجھ گرفتار جدائی کے جو پاؤں میں پڑی
ہو جنوں حلقے سے ہر حلقۂِ زنجیر جدا
میں نے جو دردِ جدائی سے کیے ہیں نالے
کیجیے تن سے مرا سر پئے تعزیر جدا
تیغ آہن سے سوا ہے برشِ تیغ زباں
حق کو باطل سے کرے گی تری تقریر جدا
آشنا متحد اس درجہ کہاں ہوتے ہیں
آپ دلگیر ہے ناسخؔ جو ہے دلگیر جدا