16 دسمبر 1752 ۔ 19 مئی 1817

انشاء اللہ خان انشا
سید انشاء اللہ خان انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور اردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔
مزید

27 دسمبر 1797 ۔ 15 فروری 1869

مرزا غالب
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے
مزید

27 دسمبر 1809 ۔ 11 جولائی 1869

مصطفٰی خان شیفتہ
نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی کے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔
مزید

14 دسمبر 1937 ۔ 08 نومبر 2002

جون ایلیا
جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔
مزید

10 دسمبر 1803 ۔ 10 دسمبر 1874

میر انیس
میر ببر علی انیسؔ اردو زبان کے ممتاز ترین مرثیہ نگار، ، مرثیہ خواں شاعرتھے۔ میر انیس کی وجہ ٔ شہرت مرثیہ نگاری ہے جس میں آج تک اُن کے مقامِ سخن کو اُردو کا کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا۔
مزید

06 اپریل 1890 ۔ 09 دسمبر 1960

جگر مراد آبادی
جگر مراد آبادی بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھاپے میں تا ئب ہو گئے تھے
مزید

میں تو سخن میں عشق کے بولوں نہ ہاں نہ ہوں

انشاء اللہ خان انشا


جب تک کہ خوب واقف رازِ نہاں نہ ہوں
میں تو سخن میں عشق کے بولوں نہ ہاں نہ ہوں
خلوت میں تیری بار نہ جلوت میں مجھ کو ہائے
باتیں جو دل میں بھر رہی ہیں سو کہاں کہوں
گاہے جو اس کی یاد سے غافل ہو ایک دم
مجھ کو دہن میں اپنے لگی ہے زباں زبوں
شط عمیق عشق کو یہ چاہتا ہوں میں
ابر مژہ سے رو کے اسے بے کراں کروں
طوفانِ نوح آنکھ نہ ہم سے ملا سکے
آتی نظر ہیں چشم سے ہر پل عیاں عیوں
ناصح خیالِ خام سے کیا اس سے فائدہ
کب میرے دل سے ہو ہوس دلبراں بروں
یہ اختلاط کیجیے موقوف ناصحا
معقول یعنی دل اسے اے قدرداں نہ دوں
انشاؔ کروں جو پیروی شیخ و برہمن
میں بھی انہوں کی طرح سے جوں گمرہاں رہوں
خلوت سرائے دل میں ہے ہو کر کے معتکف
بیٹھا ہوں کیا غرض کہیں اے جاہلاں ہلوں