13 فروری 1911 ۔ 20 نومبر 1984

فیض احمد فیض
اردو کے مشہور شاعراور انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔
مزید

12 نومبر 1844 ۔ 01 نومبر 1917

اسماعیل میرٹھی
مولوی اسماعیل میرٹھی کا شمار اردو ادب کے ان اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے جن میں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ شامل ہیں۔اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لئے بے مثال نظمیں تخلیق کیں
مزید

01 اکتوبر 1934 ۔ 12 نومبر 1966

شکیب جلالی
جدید اردو غزل کی آبرو، شکیب جلالی برِّصغیر کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب کے حلقوں میں پہلے ہی ان کا نام ایک چونکا دینے والے شاعر کے طور پر سامنے آ چکا تھا لیکن جواں سالی میں خودکشی کی وجہ سے ہر خاص و عام کی نظر میں آئے اور اپنی شاندار غزلوں سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے
مزید

14 دسمبر 1937 ۔ 08 نومبر 2002

جون ایلیا
جون ایلیا برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔
مزید

24 اکتوبر 1775 ۔ 07 نومبر 1862

بہادر شاہ ظفر
خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ اور اردو کے ایک بہترین و مایا ناز شاعر اور ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب سے شاعری میں رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ انگریز کے ہاتھوں جلاوطن ہو جانے کے بعد انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہاردو ادب کا اثاثہ ہیں۔
مزید

06 اپریل 1890 ۔ 09 دسمبر 1960

جگر مراد آبادی
جگر مراد آبادی بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھاپے میں تا ئب ہو گئے تھے
مزید

مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

شکیب جلالی


وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا
میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا
قریب تیر رہا تھا بطخوں کا ایک جوڑا
میں آب جو کے کنارے اداس بیٹھا تھا
شبِ سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا
بنی نہیں جو کہیں پر، کلی کی تربت تھی
سنا نہیں جو کسی نے ، ہوا کا نوحہ تھا
یہ آڑی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادا تھا
میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا
اتر گیا ترے دل میں تو شعر کہلایا
میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
ادھر سے بار ہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
وہ اس کا عکسِ بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا
میں ساحلوں میں اترا کر شکیبؔ کیا لیتا
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن